This site uses cookies.
Some of these cookies are essential to the operation of the site,
while others help to improve your experience by providing insights into how the site is being used.
For more information, please see the ProZ.com privacy policy.
Professional Wordsmith Crafting the Symphony of Letters!
Account type
Freelance translator and/or interpreter
Data security
This person has a SecurePRO™ card. Because this person is not a ProZ.com Plus subscriber, to view his or her SecurePRO™ card you must be a ProZ.com Business member or Plus subscriber.
Affiliations
This person is not affiliated with any business or Blue Board record at ProZ.com.
English to Urdu: Esoteric, Mysticism, and Spirituality (Excerpt from whole book translation) General field: Art/Literary Detailed field: Printing & Publishing
Source text - English My Noble Son,
I write this letter to you at our favourite time of the
day, when the first pale stars appear in the
darkening sky. I sit now under the pomegranate
tree where I have dictated so much of my work to
you. The fruit is now ripe, and it hangs above my
head, glowing in the last rays of the sun like a whole
planetary system. Yet before this fruit is gathered
in, I shall be gone. It is important to me that you
should understand why I am leaving and also that
you should not try to explain to others. This would
be futile and only cause you pain.
Do not forget all that I have taught you. It is
essential now that you put this training into
practice. You will be the last man of this dynasty
to have retained the art of reading – retained it, that
is, beyond the useless formal act of literacy. So, my
beloved and honoured son, set down the letter and
prepare yourself.
Again, greetings, my firstborn, and receive the
salutations of the moving moon as it slants across
the page.
You have performed the rites.
You have bathed.
You have donned a new silk robe.
You have saluted your beloved mother and
grandparents.
You have retired to your room behind the
bamboo screen.
You have lit the lamp.
You have made the ritual prostrations.
You have intoned the Major Incantation upon
the Ancestors.
You have noted the hour of the day.
You have seated yourself, adjusting the folds
of your robe in a fitting manner.
You have fixed the mind, unwavering, until the
objects visible to you in your range of vision are
merged, as it were, like the outlines on a painted
screen.
You have observed your breath, flowing in and
out until it seems almost to have ceased.
There is now a slight film of coolness over the
eyes.
Your tongue is against the roof of your mouth.
You are fixed upon the ideograms of my letter
with such attention that you could be reading them
as if written across the sky.
Excellent. Let us begin.
In quality of mind it is depth that matters.
One who excels in travelling leaves no wheel tracks.
When you read this, I shall be gone. The wind
blows bare the last seeds, and leaves behind dry
earth. The ocean bears the seed on its back and
carries it to fresh soil. Later, the desert will be
recovered. What matters to the wind is that the
seed should live.
Here the Empire has collapsed. The soldier is
more honoured than the scholar, and the scholar
relies on his books. The sage shuts his door to
visitors and goes back to his garden.
My honourable father told me that his
grandfather – long may he be remembered! – wept
over the scholars of his day. The yarrow stalks had
been replaced by three coins, and the obligatory
period of three-hour meditation had been reduced
to half an hour before consultation of the Oracle
of the I Ching. Yesterday, the learned doctor of
physics at the Court lifted a copy of the I Ching
while he was at dinner and opened it at random,
declaring the hexagram with enthusiasm. He noted
that even thus it was full of wisdom. As he made
this observation, a drop of soy sauce fell, unnoticed,
on the noble pages of the Oracle. It was always the
teaching of our most honoured ancestors that
recourse to an oracle was in itself a sign of
ignorance. Many times we have been reminded that
we contain all the sixty-four hexagrams within us,
and the webbed calculation that unfolds the reading
is arrived at without trouble by a clear mind. Yet if
it is to be used with wisdom, it must be understood
that the Oracle is the pretext, and the calculation
itself is the experience. A lame man may use a stick
until he recovers the use of his limb. If he relies on
the stick too long, he may become deformed. If,
once deformed, he then bows to the stick, he is in
a state of ignorance.
I am leaving the Court of the Emperor. It is
always through not meddling that the Empire is
won.
Translation - Urdu میرے معزّز فرزند،
میں تمہیں یہ خط ہمارے یوم کے بہترین وقت پر تحریر کر رہا ہوں، جب سب سے پہلے چمکتے ستارے تاریک ہوتے ہوئے آسمان پر نمودار ہوتے ہیں۔ میں اس وقت انار کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوں جہاں سے میں نے اپنے کام زیادہ تر ہدایات تمہیں دی ہیں۔ پھل اب پک چکا ہے، اور یہ میرے سر کے اوپر لٹک رہا ہےاور تمام سیّاروی نظام کی طرح یہ سورج کی غروب ہوتی ہوئی آخری کرنوں میں دمک رہا ہے۔ قبل اس کے کہ یہ پھل توڑا جائے ، میں تب تک جا چکا ہوں گا۔ میرے لیے یہ ضروری ہے کہ تمہیں سمجھ آجائے کہ میں کیوں جا رہا ہوں اور یہ بھی کہ تمہیں دوسروں کے سامنے اس کی وضاحت بھی پیش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ وضاحت بے کار ثابت ہو گی اور تمہارے لیے صرف تکلیف کا باعث بنے گی۔
وہ سب کچھ مت بھولو جو میں تمہیں سکھا چکا ہوں۔ اب یہ لازم ہے کہ تم اپنی تربیت کو عملی طور پر کام میں لاؤ۔ اس خاندان کے تم آخری فرد ہو گے جس نے مطالعے کا فن حاصل کیا ہے—حاصل کیا ہے، یعنی یہ خواندگی کے رسمی عمل سے کہیں آگے ہے۔ لہٰذا، میرے محبوب اور معزّز فرزند، خط کو غور سے پڑھو اور اپنے آپ کو تیّار کرو۔
ایک بار پھر، نیک خواہشات ، میرے پہلوٹی فرزند ، اور گردش کرتے چاند کی مبارک بادیں وصول کروجب یہ صفحے پر اپنی روشنی بکھیرتے ہوئے گزر رہا ہو۔
تم عبادتی رسومات انجام دے چکے ہو۔
تم غسل کر چکے ہو۔
تم ایک نیاریشمی لبادہ زیبِ تن کر چکے ہو۔
تم اپنی محبوب ماں اور دادا دادی اور نانا نانی کو سلام کر چکے ہو۔
تم بانس کے پردے کے پیچھے اپنے کمرے میں سکونت اختیار کر چکے ہو۔
تم چراغ جلا چکے ہو۔
تم رسمی پرستش کے اعمال انجام دے چکے ہو۔
تم اپنے آباء و اجداد کے لیے عقیدت پر مبنی خاص دعائیہ گیت گنگنا چکے ہو۔
تم یوم کی ساعت درج کر چکے ہو۔
تم نشست پر براجمان ہوچکے ہو، اپنے لبادے کی تہیں درست کر چکے ہو۔
تم ذہن یکسو کر چکے ہو، جامد، جب تک تاحدِّ نگاہ منظر میں موجود چیزیں ضم نہ ہو جائیں، جیسے کہ، مصوّری شدہ پردے پر لکیریں۔
تم اپنے تنفّس کا مشاہدہ کر چکے ہو، اندر جاتے اور باہر نکلتے سانس جب تک تقریباً بالکل رُک نہ جائے۔
اب آنکھوں میں ٹھنڈک کی ایک خفیف سی تصویر اُتَر چکی ہے۔
تمہاری زبان تمہارے مُنہ کی چھت کے مخالف ہے۔
تم میرے خط کی تخیّلاتی بناوٹوں کے ساتھ ایسی توجّہ سے جُڑ چکے ہو کہ جیسے تم آسمان پر تحریر نَوِشتہ پڑھ رہے ہو۔
بہت خوب۔ آؤ شروع کرتے ہیں۔
ذہن کا معیار ناپنے کے لیے یہ گہرائی و گیرائی ہے جو اہمیت رکھتی ہے۔
وہ فرد جو سفر کرنے میں کامل اور طاق ہے، اپنے پیچھے قدموں یا پہیّوں کے نشانات نہیں چھوڑتا۔
جب تک تم یہ پڑھو گے، میں جا چکا ہوں گا۔
ہوا آخری بغیر پھوٹے بیجوں کو اڑاتی ہے، اور اپنے پیچھے بنجر زمین چھوڑ جاتی ہے۔ سمندر بیج کو اپنی پُشت پر پالتا ہےاور اس کو تازہ مٹّی تک لے جاتا ہے۔ بعد میں صحرا صحت یاب ہو جائے گا۔ ہوا کے لیے جو بات اہم ہے، وہ یہ کہ بیج کو زندہ رہنا چاہیے۔
یہاں سلطنت تباہ حالی کا شکار ہے۔ عالِم سے زیادہ فوجی کی عزّت کی جاتی ہے، اور عالِم اپنی کتب پر بھروسہ کرتا ہے۔ دانش ور نے ملاقاتیوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں اور واپس اپنے باغ پہنچ گیا ہے۔
میرے معزّز والد نے مجھے کہا تھا کہ ان کے دادا – خدا انہیں غریقِ رحمت کرے! – موجودہ دور علماء کی حالت پر روتے تھے۔ ییرو کے تنوں کی جگہ تین سِکّوں نے لے لی تھی، اورآئی -چِنگ کے دار الاستخارے سے مشاورت کرنے سے قبل تین گھنٹے کے مراقبے کا لازمی دور گھٹ کر محض آدھے گھنٹے کا رہ گیا تھا۔ گزشتہ یوم، دربار میں طبیعیات کے ماہر معالج نے رات کے طعام کے دوران آئی-چِنگ کا نسخہ اٹھایااور اسے سرسری طور پر کھولا، شش جہتی علامت کا جوشیلے انداز میں اعلان کیا۔ موصوف نے یہاں تک اظہار کیا کہ لہٰذا یہ دانش سے بھرپور علامت ہے۔ جب وہ یہ مشاہدہ بیان کر رہے تھے، اسی وقت سویا سوس کا ایک قطرہ ٹپکا، کسی کی نظر میں آئے بغیر، دارالاستخارہ کے معزّز صفحات پر۔ہمارے معزّز آباء و اجداد کی ہمیشہ سے یہ تدریس رہی ہے کہ دارالاستخارہ کے متبادل کا انتخاب کرنا بہ ذاتِ خود جہالت کی علامت ہے۔ متعدّد مرتبہ ہمیں یہ یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ہم بہ ذاتِ خود چونسٹھ شش جہتی علامات کے حامل ہیں، اورجال پر مبنی تخمینہ جو بناء کسی دشواری مطالعے کے در کھولتا ہے ، وہ الجھن سے پاک ذہن کا مرہونِ منّت ہے۔ اگر اسے دانش مندی سے استعمال کیا جائے، تو لازمی طور پریہ سمجھنا چاہیے کہ دارالاستخارہ ایک جواز ہے، اور تخمینہ بہ ذاتِ خود ایک تجربہ ہے۔ ایک عام انسان اس وقت تک چھڑی استعمال کر سکتا ہے، جب تک وہ اپنی ٹانگیں دوبارہ استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوجاتا۔ اگر وہ چھڑی پر طویل عرصے تک انحصار کرتا ہے ، تو اس کی جسمانی ہیئت بگڑ سکتی ہے۔ اگر ایک مرتبہ جسمانی ہیئت بگڑ جائے ، تو وہ چھڑی کا محتاج ہو جاتا ہے، وہ جہالت کی حالت میں رہتا ہے۔
میں سلطان کا دربار چھوڑ رہا ہوں۔ یہ ہمیشہ عدم مداخلت کا طفیل ہی رہا ہے کہ سلطنت فتح یاب ہوئی ہے۔
Urdu to English: Economics Defined General field: Social Sciences Detailed field: Economics
Source text - Urdu معاشیات یا اقتصادیات ) Economics ( معاشرتی علوم ) Social Sciences ( کی اہم ایک شاخ ہے جس میں قلیل ماد ی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کی جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز ) Lionel Robbins ( نے د ی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی ر ویہ کا مطالعہ کرتے ہی جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معا شیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی ر ویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی ر ویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کی جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اورانسانی فلاح جیسے مضامین بھ شامل ہی جن کا احاطہ پہلے نہیں کی جاتا تھا۔ معا شیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیجنہوں نے اب ا پنی علیحدہ حیثیت ا ختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور انتظام۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہی مگر مجموعی طور پر انہیں جزیاتی معاشیات ( Microeconomics ( اور کلیاتی معاشیات ) Macroeconomics ( میں تقسیم کی جا سکتا ہے ۔
قدیم ادوار میں مالیاتی نظام حکومت کی ذمہ داریوں کی طرح سیدھا ساد ہ ہوتا تھا۔ عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑ ا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ ذرخیز علاقو ں پرعام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصو لکسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھی محصو ل لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔
قدیم زمانے میں ضرورتیں مختصر اور سادہ ہوا کرتی تھیں، لیکن تہذیب و تم ن کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور نیرنگی پیا ہوتی گئی۔ بنیادی طور پر ہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا ،،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیےمکان درکار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کو بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچاتی ہی اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہی۔ أئ صوفہ، ریڈیو، ٹیلی ویژ ن، فریج، ایر کنڈیشنز، موٹرسائیکل اور کار وغیرہ ہی۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کرنے کے لیے انسان محنت کرتا ہے اور دولت کماتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہی کہ کسان کھیتوں میں، مزدور کارخانوں میں، کلرک دفتروں میں سرگرم عمل ہی۔ غرض ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، دھوبی اور نائی ہر شخص اپنا کام کر رہا ہے تاکہ رو پیہ حاصل کرکے ضرورت کی اشیاء حاصل کرسکے۔ انسان کی اس جدوجہد کا اور اس کی کوششوں کا تعلق معاشیات سے ہے۔
دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہی لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع تھوڑے ہی۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپن خواہشات کواس قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلوکے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔
حاجات کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باعث دنیا کی بیشتر آبادی مسائل ر بت، جہالت، بیماری، قحط، بے روزگاری سے دوچار ہے۔ مثلاافراط زر وغیرہ ہی۔ چنانچہ معاشی ماہرین ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہی اور انہیں حل کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہی اور معا شی ترقی پر زور دیتے ہی، ایسی تجویزیں پیش کرتے ہی جس سے ملک میں اشیاء کی پیاوار بڑھے، روزگار ملے اور لوگوں میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو ، خوشحالی کا معیار بلند ہو اور ان کی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری ہوں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشیات کے جدید اصولوں اور نظریات سے فائد ہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ تاکہ اشیاء کی پیاوار بڑھے، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگوں کو ضرورت کی اشیاء ملیں اور معاشرہ خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔
انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوں کو سامنے رکھتے ہوئے ا یسانظام بنایا جائے کہ کس طرح تما مانسانوں کو ا نکی ضروریات زند گی بہم پہچانے کاانتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپن قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپن شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپن لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بلا امتیاز و فرق کے کم از کم اپنا سامان حیا ت ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طورپر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ قدیم ادوار میں مالیاتی نظام حکومت کی ذمہ داریوں کی طرح سیدھا سادہ ہوتا تھا۔ عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ ذرخیز علاقوں پر عام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصول کسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے
علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھ محصول لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔
قدیم زمانے میں ضرورتیں مختصر اور سادہ ہوا کرتی تھیں، لیکن تہذیب و تم ن کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور نیرنگی پیا ہوتی گئی۔ بنیادی طور پرہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا ،،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیےمکان درکار ہے۔
Translation - English Economics is an important branch of social sciences in which the distribution of scarce material resources and production and their demand and supply are studied. It has also been used as a synonym. A comprehensive definition of economics given by Lionel Robbins is as follows: 'Economics is the science in which we study human behavior when it is subject to unlimited wants and needs. Faced with limited resources, while these limited resources have diverse uses, economics has become a modern social science in which not only human economic behavior but also the economic behavior of society and countries as a whole. And all issues related to human life and its economic development are covered and it includes subjects like future planning and human welfare which were not covered earlier These have now acquired their own separate status, such as finance, trade and management. Many branches of economics, but overall they can be divided into microeconomics and macroeconomics.
In ancient times, the financial system was as simple as the responsibilities of government. Generally, the responsibilities of the government were limited. Therefore, there were no complications in revenue. A major part of the revenue consisted of land tax and its revenue. While the fertile areas usually had a higher revenue or some special crops were planted on them for a specific purpose. Apart from this, taxes were levied on Jizya, trade and inheritance. More or less, in Rome, Iran, Egypt and other regions before Islam, the same taxes were imposed in different forms.
In ancient times, the requirements were short and simple, but with the development of civilization, they became more and more complex. Basically we need food to satisfy hunger, cloth to cover and shelter to stay. But apart from this, a person needs many things that provide comfort and entertainment. i.e. sofa, radio, television, refrigerator, air-conditioners, motorcycle and car etc. So, to fulfill these needs, man works hard and earns wealth. That is why we see farmers in the fields, workers in factories, clerks in offices. Therefore, doctors, professors, lawyers, washermen and barbers are doing their work so that they can get the necessary items by earning money. This struggle of man and his efforts are related to economics.
In fact, human desires are numerous but the means to fulfill them are few. So he is faced with the problem of how to fulfill his desires with these meager resources. It is as if he has to choose between numerous desires and be content with means. The study of this aspect of human behavior is called economics.
Due to abundance of needs and scarcity of resources, most of the population of the world is suffering from poverty, ignorance, disease, famine, unemployment. For example, inflation etc. So, as soon as economists think about these problems and make economic plans to solve them and emphasize on economic development, they make proposals that will increase the supply of goods in the country, provide employment and increase the number of people in the country. The distribution of wealth should be fair, the standard of prosperity should be high and their needs should be adequately met. Therefore, it is necessary to take advantage of the modern principles and theories of economics and try for economic development. So that the supply of goods increases, people get employment and people get necessities and the society moves towards prosperity.
Keeping in front the various aspects of human economic problem, a system should be made that how all human beings should be managed to meet their needs in life and how each individual in the society should develop according to his ability and capacity to develop his personality. And get the opportunities to bring your worth to the level of perfection. The main goal of the economic system is that every member of the society, whether he is a child or an old man, a woman or a man, without discrimination or difference, at least his goods. Must be available. Without which, generally, a human being cannot live with satisfaction, nor can he perform his duties and obligations properly. Which are imposed on him in a different capacity. This means that every member of the society should have adequate provision of food, clothing and shelter, treatment, education and employment at some level and no person should be deprived of these basic needs. In ancient times, the financial system was as simple as the responsibilities of government. Generally, the responsibilities of the government were limited. Therefore, there were no complications in revenue. A major part of the revenue consisted of land tax and its revenue. While the fertile areas usually had a higher revenue or some special revenue was levied on them for a specific purpose. his
Apart from this, taxes were levied on jizya, trade and inheritance. More or less, in Rome, Iran, Egypt and other regions before Islam, the same taxes were imposed in different forms.
In ancient times, the requirements were short and simple, but with the development of civilization, they became more and more complex. Basically we need food to satisfy hunger, cloth to cover and shelter to stay.
More
Less
Translation education
Master's degree - University of Karachi
Experience
Years of experience: 22. Registered at ProZ.com: Aug 2015.
Adobe Acrobat, Microsoft Excel, Microsoft Office Pro, Microsoft Word, CAT Tools, memoQ, Trados Studio
CV/Resume
CV available upon request
Professional objectives
Meet new translation company clients
Meet new end/direct clients
Network with other language professionals
Get help with terminology and resources
Learn more about translation / improve my skills
Learn more about interpreting / improve my skills
Get help on technical issues / improve my technical skills
Buy or learn new work-related software
Improve my productivity
Bio
Armed with Master's degree in Journalism and Mass Communications and Bachelor's degree in Finance, Business, Commerce, and Accounting — I have been providing quality translations in English>Urdu and Urdu>English language pairs as a veteran freelance translator.
As an all-rounder — my full-time working experience encompasses the fields of translation, editing, sub-editing, proofreading, reviewing, script-writing, journalism, advertising, copywriting, research, content research, print journalism, publishing, broadcasting, broadcast journalism, radio broadcasting, radio programme production, television broadcasting, television programme production, non-profit, and non-governmental organisation.
This user has reported completing projects in the following job categories, language pairs, and fields.